جاننا چاہیے کہ ذکر کی حقیقت غفلت کو دور کرنا ہے یعنی جو امر غفلت کا دور کرنے والا ہو خواہ وہ فعل زبان سے ہو یا قلب سے یا خیال سے پس وہ ذکر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور اس کے منہیات سے بچنے کے ساتھ جو کام بھی کیا جائے غفلت کو دور کرنے والا ہے اور ذکر ہے۔ خرید و فروخت، نکاح و طلاق، خورد و نوش، نشست و برخاست وغیرہ جملہ امور شرع کی رعایت کے ساتھ جب کہ نیت یہ ہو کہ حکم الہی کی تعمیل کر رہا ہے سب ذکر ہی ہے۔ پس جب غفلت دل سے بالکل دور ہوجاتی ہے اور مذکور کی تجلی دل پر دائمی ہوجاتی ہے اور ذاکر منتہی ہوجاتا ہے اس وقت کانک تراہ (گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے) اس پر صادق آتا ہے اور:
کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا (۱)
(اللہ پاک فرماتا ہے) پس میں اس کی شنوائی ہوتا ہوں کہ وہ اس کے ساتھ سنتا ہے اور اس کی بینائی ہوتا ہوں کہ اس کے ساتھ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوتا ہوں کہ اس کے ساتھ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہوتا ہوں کہ اس کے ساتھ چلتا ہے۔
کا مظہر و مصداق ہوجاتا ہے۔
پس ذکر کی چند قسمیں ہوئیں:
۱۔ دل سے۔
۲۔ زبان سے۔
۳۔ دل اور زبان دونوں سے۔
۴۔اعضا اور جوارح کے ساتھ۔
افضل یہ ہے کہ دل اور زبان دونوں سے ہو اور اگر ایک سے ہو تو دل کا افضل ہے۔ محض زبان سے ذکر کرنا جب کہ دل غافل ہے فائدے سے خالی نہیں اس لیے محض اس بنا پر اسے ترک نہیں کردینا چاہیے کہ ایک عضو تو ذاکر ہے اور اس دوران میں کبھی کبھی تو حضوری بھی ہوجاتی ہے تمام وقت تو غافل نہیں رہے گا۔ نیز یہ حضور قلب کا ذریعہ بن جائے گا۔ اعضاء و جوارح کے ذکر میں بھی حضور قلب ضروری ہے اور اس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ شروع کرتے وقت رضائے الٰہی یا احکام الٰہی کی تعمیل وغیرہ کی نیت کا حضور ہو۔
دل کا ذکر بھی دو طرح پر ہے: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت و ملکوت میں فکر کرنا اور اس کی قدرت کی نشانیوں یعنی زمین و آسمان و مافیہا میں غور و تدبر کرنا اس کو ذکر خفی کہتے ہیں۔
مطلب یہ کہ کسی عضو کو بغیر رضائے حق کے استعمال نہیں کرتا اور یہ حصول رضا اس کو آسان کردیا جاتا ہے اور یہ مراقبے کی حقیقت ہے۔ دوسری قسم دل کے ذکر کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کے بجا لاتے وقت اس کو یاد کرنا اور پہلی قسم افضل و اعلیٰ ہے۔
واضح رہے کہ بعض وقت محض دل سے ذکر کرنا افضل ہوتا ہے، بلکہ زبان سے وہاں جائز بھی نہیں ہوتا جیسا کہ بیت الخلاء میں یا غسل کرتے وقت یا خلوت صحیحہ کے وقت جس کی تصریح فقہ میں موجود ہے۔ پس ذکر قلبی قوی تر اور بزرگ تر ہے اور دائمی ذکر اسی سے ہوتا ہے، لیکن جہاں شرع میں زبان سے ذکر کرنا ہے جیسا کہ نماز کی قرأت و تسبیحات وغیرہ میں وہاں دل سے ذکر کرنا کفایت نہیں کرتا ، بلکہ زبان سے کرنا چاہیے، ورنہ وہ عبادت مقبول نہ ہوگی اور بعض فقہاء نے جو یہ لکھا ہے کہ ذکر نہیں ہوتا مگر زبان کے ساتھ پس شاید ان کا مقصود ایسے ہی مواقع سے ہو جن میں شرع شریف میں زبان سے ذکر کرنا آیا ہے، واللہ اعلم۔زبان کے ذکر کا ادنی درجہ مختار قول کے بموجب یہ ہے کہ وہ خود سن سکے، اس کے بغیر معتبر نہیں۔
اب کچھ قرآن پاک کی آیات کا حوالہ مع ترجمہ ذکر کے فضائل میں درج کیا جاتا ہے اس کے بعد احادیث نبویﷺ درج کی جاتی ہیں، جو چالیس یا اس سے کچھ اوپر ہیں۔ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ جو شخص دین کی چالیس باتیں (حدیثیں) یاد کرلے اللہ تعالیٰ اس کا حشر علماء کے ساتھ کرے گا۔ کوشش کی گئی ہے کہ فضائل ذکر کی اس چہل حدیث میں آسان اور مختصر متن والی صحیح احادیث لی جائیں تاکہ یاد کرنے والوں کو آسانی ہو اور بھی فضائل ذکر میں بہت احادیث وارد ہیں جو بخوف طوالت ترک کردی گئی ہیں۔ قارئین کرام اس دولت کو غنیمت سمجھیں اور ان آیات و احادیث کو یاد کرلیں، ان کے مطالب کو سمجھیں اور ان کا ہر روز ورد رکھیں۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ
قرآن پاک کی آیات کا حوالہ مع ترجمہ
۱۔ فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ ﴿۱۵۲﴾٪ (البقرۃ: ۱۵۲)
پس تم میری یاد کرو (میرا ذکر کرو) میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر کرتے رہو اور ناشکری نہ کرو۔
۲۔ فَاِذَاۤ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَرَامِ ۪ وَ اذۡکُرُوۡہُ کَمَا ہَدٰىکُمۡ ۚ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿۱۹۸﴾ (البقرہ:۱۹۸)
پھر جب تم (حج کے موقع پر) عرفات سے واپس آجاؤ تو مزدلفہ میں (ٹھہر کر) اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس طرح تم کو بتا رکھا ہے اور درحقیقت تم اس سے پہلے محض ناواقف تھے۔
۳۔ فَاِذَا قَضَیۡتُمۡ مَّنَاسِکَکُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا ؕ (البقرہ:۲۰۰)
پھر جب تم حج کے اعمال پورے کر چکو تو اللہ کا ذکر کیا کرو جس طرح تم اپنے آباء (و اجداد) کا ذکر کرتے ہو (کہ ان کی تعریفوں میں زبان تر رکھتے ہو) بلکہ اللہ کا ذکر اس سے بھی بڑھ کر ہونا چاہیے۔
فائدہ: حدیث شریف میں آیا ہے کہ تین شخصوں کی دعا رد نہیں کی جاتی:
۱۔ جو کثرت سے ذکر کرتا ہو۔
۲۔مظلوم۔
۳۔ وہ بادشاہ جو ظلم نہ کرتا ہو۔
(الجامع الصغیر)
۴۔ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ (البقرہ: ۲۰۳)
اور (حج کے زمانہ میں منی میں بھی ٹھہر کر) کئی روز تک اللہ کو یاد کیا کرو۔ (اس کاذکر کیا کرو)
۵۔ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ کَثِیۡرًا وَّ سَبِّحۡ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ ﴿۴۱﴾ (آل عمران:۴۱)
اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کیا کیجیے اور صبح و شام تسبیح کیا کیجیے۔
۶۔ الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران:۱۹۱)
(پہلے سے عقل مندوں کا ذکر ہے) وہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمینوں کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں (اور غور کے بعد یہ کہتے ہیں) اے ہمارے رب! آپ نے یہ سب بے کار تو پیدا کیا نہیں۔ ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں، آپ ہم کو عذاب جہنم سے بچائیے۔
۷۔ فَاِذَا قَضَیۡتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِکُمۡ ۚ (النساء:۱۰۳)
جب تم نماز (خوف جس کا ذکر پہلے سے ہے) پوری کرچکو تو اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہو جاؤ کھڑے بھی بیٹھے بھی اور لیٹے بھی (یعنی کسی حال میں بھی اس کی یاد سے غافل نہ رہو)
۸۔ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۱۴۲﴾۫ۙ (النساء: ۱۴۲)
(منافقوں کی حالت کا بیان ہے) اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو (اپنا نمازی ہونا) دکھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی نہیں کرتے مگر (یونہی) تھوڑا سا۔
۹۔ اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ وَ یَصُدَّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ ﴿۹۱﴾ (المائدۃ:۹۱)
اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تم میں آپس میں عداوت اور بغض پیدا کردے اور تم کو اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے۔ بتاؤ اب بھی (ان بری چیزوں سے) باز آجاؤ گے؟
۱۰۔ وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ؕ (الانعام: ۵۲)
اور ان لوگوں کو اپنی مجلس سے علیحدہ نہ کیجیے جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں، جس میں خاص اس کی رضا کا ارادہ کرتے ہیں۔
۱۱۔ وَّ ادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ (الاعراف:۲۹)
اور پکارا کرو اس کو (یعنی اللہ تعالیٰ کو) اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے۔
۱۲۔ اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾ (الاعراف:۵۵-۵۶)
تم لوگ اپنے رب کو عاجزی کرتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارتے رہو، بے شک حق تعالیٰ شانہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند کرتے ہیں اور دنیا میں بعد اس کے کہ اس کی اصلاح کردی گئی ہے فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ جل شانہ کو (عذاب سے) خوف کے ساتھ اور (رحمت میں) طمع کے ساتھ پکارا کرو۔ بے شک اللہ کی رحمت اچھے کام کرنے والوں کے بہت قریب ہے۔
۱۳۔ وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا ۪ (الاعراف: ۱۸۰)
اور اللہ ہی کے واسطے اچھے اچھے نام ہیں پس ان کے ساتھ اللہ کو پکارا کرو۔
۱۴۔ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً وَّ دُوۡنَ الۡجَہۡرِ مِنَ الۡقَوۡلِ بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ وَ لَا تَکُنۡ مِّنَ الۡغٰفِلِیۡنَ ﴿۲۰۵﴾ (الاعراف: ۲۰۵)
اور اپنےر ب کو اپنے دل میں بھی ذرا دھیمی آواز سے بھی اس حال میں عاجزی بھی ہو اور اللہ کا خوف بھی (ہمیشہ) صبح کو بھی اور شام کو بھی یاد کرو اور غافلوں میں سے نہ ہو۔
۱۵۔ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾ الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ؕ﴿۳﴾ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ مَغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ۚ﴿۴﴾ (الانفال: ۲- ۴)
ایمان والے تو وہی لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو (اس کی بڑائی کے تصور سے) ان کے دل ڈرجاتے ہیں اور جب ان پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو بڑھادیتی ہیں اور وہ اپنے اللہ پر توکل رکھتے ہیں، یہی لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں، یہی سچے لوگ ایمان والے ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے بڑے درجے ہیں اور مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔
۱۶۔ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ اَنَابَ ﴿ۖۚ۲۷﴾ اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾ (الرعد: ۲۷- ۲۸)
اور جو شخص اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
۱۷۔ قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ (بنی اسرائیل: ۱۱۰)
آپ فرمادیجیے کہ خواہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکارو گے (وہی بہتر ہے)کیونکہ اس کے لیے بہت اچھے نام ہیں۔
۱۸۔ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ (الکہف: ۲۴)
اور جب آپ بھول جائیں تو اپنے رب کا ذکر کرلیا کیجیے۔
۱۹۔ وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا ﴿۲۸﴾ (الکہف:۲۸)
آپ اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کا پابند رکھا کیجیے جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں، محض اس کی رضا جوئی کے لیے اور محض دنیا کی رونق کے خیال سے آپ کی نظر (یعنی توجہ) ان سے ہٹنے نہ پائے (رونق سے مراد یہ ہے کہ رئیس مسلمان ہوجائیں تو اسلام کو فروغ ہو) اور ایسے شخص کا کہنا نہ مانیں جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور وہ اپنی خواہشات کا تابع ہے اور اس کا حال حد سے بڑھ گیا ہے۔
۲۰۔ وَّ عَرَضۡنَا جَہَنَّمَ یَوۡمَئِذٍ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ عَرۡضَۨا ﴿۱۰۰﴾ۙالَّذِیۡنَ کَانَتۡ اَعۡیُنُہُمۡ فِیۡ غِطَـآءٍ عَنۡ ذِکۡرِیۡ وَ کَانُوۡا لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَمۡعًا﴿۱۰۱﴾٪ (الکہف: ۱۰۰- ۱۰۱)
اور ہم دوزخ کو اس روز (یعنی قیامت کے دن) کافروں کے سامنے پیش کردیں گے جن کی آنکھوں پر ہماری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ سن نہ سکتے تھے۔
۲۱۔ ذِکۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّکَ عَبۡدَہٗ زَکَرِیَّا ۖ﴿ۚ۲﴾ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا ﴿۳﴾ (مریم: ۲- ۳)
یہ تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کے مہربانی فرمانے کا اپنے بندہ زکریاعلیہ السلام پر، جب کہ انہوں نے اپنے پروردگار کو چپکے سے پکارا۔
۲۲۔ وَ اَدۡعُوۡا رَبِّیۡ ۫ۖ عَسٰۤی اَلَّاۤ اَکُوۡنَ بِدُعَآءِ رَبِّیۡ شَقِیًّا ﴿۴۸﴾ (مریم: ۴۸)
اور میں اپنے رب کو پکارتا ہوں (قطعی) امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر محروم نہ رہوں گا۔
۲۳۔ اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ﴿۱۴﴾ (طہ:۱۴ )
بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم (اے موسی علیہ السلام) میری ہی عبادت کیا کرو اور میری ہی یاد کے لیے نماز پڑھا کرو۔
۲۴۔ وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ ﴿ۚ۴۲﴾ (طہ:۴۲)
(حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کو ارشاد ہے) اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔
۲۵۔ وَ نُوۡحًا اِذۡ نَادٰی مِنۡ قَبۡلُ (الانبیاء:۷۶)
اور جب کہ نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے سے پہلے۔
۲۶۔ وَ اَیُّوۡبَ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۳﴾ (الانبیاء:۸۳)
اور ایوب (علیہ السلام کا ذکر کیجیے) جب کہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھ کو بڑی تکلیف پہنچی اور آپ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہیں۔
۲۷۔ وَ ذَاالنُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۷﴾ (الانبیاء:۸۷)
اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر کیجیے) جب وہ (اپنی قوم سے) خفا ہو کر چلے گئے اور سمجھے کہ ہم ان پر دار و گیر نہ کریں گے پس انہوں نے اندھیروں میں پکارا کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں، آپ ہر عیب سے پاک ہیں، بے شک میں قصور وار ہوں۔
۲۸۔ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَ یَدۡعُوۡنَنَا رَغَبًا وَّ رَہَبًا ؕوَ کَانُوۡا لَنَا خٰشِعِیۡنَ ﴿۹۰﴾ (الانبیاء: ۹۰)
بیشک یہ سب (انبیاء جن کا پہلے ذکر ہو رہا ہے) نیک کاموں میں دوڑتے تھے اور پکارتے تھے ہم کو (ثواب کی) رغبت اور (عذاب کا) خوف کرتے ہوئے اور سب کے سب ہمارے لیے عاجزی کرنے والے تھے۔
۲۹۔ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ (الحج: ۳۴- ۳۵)
اور آپ ایسے خشوع کرنے والوں کو (جنت وغیرہ کی) خوشخبری سنادیجیے جن کا یہ حال ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈرجاتے ہیں۔
۳۰۔ رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (نور:۳۷)
(کامل ایمان والوں کی تعریف کے ذیل میں ہے) وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کو اللہ کے ذکر سے نہ تجارت غفلت میں ڈالتی ہے نہ خرید و فروخت۔
۳۱۔ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ (العنکبوت: ۴۵)
اور اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔
۳۲۔ تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۫ وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾ فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۷﴾ (السجدہ: ۱۶- ۱۷)
ان کے پہلو خواب گاہوں سے الگ رہتے ہیں اس طرح کہ (عذاب کے) ڈر سے اور (رحمت کی) امید سے وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں سے خرچ کرتے ہیں، پس کسی کو بھی خبر نہیں کہ ایسے لوگوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان خزانہ غیب میں محفوظ ہے۔ یہ بدلہ ہے اس کا جو کچھ وہ کرتے تھے۔
۳۳۔ لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱﴾ (الاحزاب: ۲۱)
بے شک تم لوگوں کے لیے رسول اللہ (ﷺ) کا نمونہ موجود ہے (یعنی) ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔
۳۴۔ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۵﴾ (الاحزاب: ۳۵)
(پہلے سے مومنوں کی صفات کا بیان ہے، اس کے بعد ارشاد ہے) اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے والے مرد اور عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
۳۵۔ یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوا اللّٰہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا﴿ۙ۴۱﴾ وَّ سَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿۴۲﴾ (الاحزاب:۴۱- ۴۲)
اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کا خوب کثرت سے ذکر کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔
۳۶۔ وَ لَقَدۡ نَادٰنَا نُوۡحٌ فَلَنِعۡمَ الۡمُجِیۡبُوۡنَ ﴿۫ۖ۷۵﴾ (الصافات: ۷۵)
اور پکارا ہم کو نوح (علیہ السلام) نے پس ہم خوب فریاد سننے والے ہیں۔
۳۷۔ فَوَیۡلٌ لِّلۡقٰسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مِّنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۲۲﴾ (الزمر: ۲۲)
پس ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
۳۸۔ اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ (الزمر: ۲۳)
اللہ جل جلالہ نے بڑا عمدہ کلام (یعنی قرآن) نازل فرمایا جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جلتی ہے بار بار دہرائی گئی جس سے ان لوگوں کے بدن کانپ اٹھتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جس کو چاہتا ہے اس کے ذریعے سے ہدایت فرمادیتا ہے۔
۳۹۔ فَادۡعُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۱۴﴾ (المومن: ۱۴)
پس پکارو اللہ کو خالص کرتے ہوئے اس کے لیے دین کو، گو کافروں کو ناگوار ہو۔
۴۰۔ ہُوَ الۡحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ؕ (المومن: ۶۵)
وہی زندہ ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں، تم خالص اعتقاد کر کے اس کو پکارا کرو۔
۴۱۔ وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ ﴿۳۶﴾ (زخرف: ۳۶)
جو شخص رحمن کے ذکر سے (جان بوجھ کر) اندھا ہوجائے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں، پس وہ (ہر وقت) اس کے ساتھ رہتا ہے۔
۴۲۔ اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ (الحدید: ۱۶)
کیا ایمان والوں کے لیے اس کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدائے تعالیٰ کی یاد کے لیے جھک جائیں۔
۴۳۔ اِسۡتَحۡوَذَ عَلَیۡہِمُ الشَّیۡطٰنُ فَاَنۡسٰہُمۡ ذِکۡرَ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ الشَّیۡطٰنِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّیۡطٰنِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۱۹﴾ (المجادلۃ: ۱۹)
ان پر شیطان کا تسلط ہوگیا پس اس نے ان کو اللہ کے ذکر سے غافل کردیا۔ یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں خوب سمجھ لو یہ بات محقق ہے کہ شیطان کا گروہ خسارہ والا ہے۔
۴۴۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰﴾ (الجمعۃ: ۱۰)
پھر جب (جمعہ کی) نماز پوری ہوچکے تو (تم کو اجازت ہے کہ) تم زمین پر چلو، پھرو اور خدا کی روزی تلاش کرو اور (لیکن اس میں بھی) اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو تاکہ تم فلاں کو پہنچ جاؤ۔
۴۵۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۹﴾ (المنافقون: ۹)
اے ایمان والو! تم کو تمہارے مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرنے پائیں اور جو لوگ ایسا کریں گے وہی خسارہ والے ہیں۔
۴۶۔ وَ مَنۡ یُّعۡرِضۡ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّہٖ یَسۡلُکۡہُ عَذَابًا صَعَدًا ﴿ۙ۱۷﴾ (الجن: ۱۷)
اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے روگردانی اور اعراض کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا۔
۴۷۔ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَدۡعُوۡا رَبِّیۡ وَ لَاۤ اُشۡرِکُ بِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۰﴾ (الجن: ۲۰)
آپ کہہ دیجیے کہ میں تو صرف اپنے پروردگار ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
۴۸۔ وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؕ﴿۸﴾ (مزمل: ۸)
اور اپنے رب کا نام لیتے رہا کیجیے اور سب سے تعلقات توڑ کر اسی کی طرف متوجہ رہیے (یعنی اللہ کا تعلق سب تعلقوں پر غالب رہے)۔
۴۹۔ وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿ۖۚ۲۵﴾ (الدھر:۲۵)
اور اپنے رب کا صبح و شام نام لیتے رہا کیجیے۔
۵۰۔ وَ اِنۡ یَّکَادُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّہٗ لَمَجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۵۱﴾ (القلم: ۵۱)
یہ کافر لوگ جب ذکر (قرآن) سنتے ہیں تو (شدت عداوت سے) ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا کر گرادیں گے اور کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ تو مجنون ہیں۔
۵۱۔ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی ﴿ۙ۱۴﴾ وَ ذَکَرَ اسۡمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی ﴿ؕ۱۵﴾ (الاعلی: ۱۴- ۱۵)
بے شک بامراد ہوگیا وہ شخص جو (برے اخلاق سے) پاک ہوگیا اور اپنے رب کا نام لیتا رہا اور نماز پڑھتا رہا۔
اب چند احادیث شریف فضائل ذکر کے سلسلے میں بیان کی جاتی ہیں
۱۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِیْ نَفْسِیْ وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاءٍ ذَکَرْتُہٗ فِیْ مَلَاءٍ خَیْرٍ مِّنْہُمْ وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذَرَاعًا وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذَرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَاِنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً۔ (۲)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں بندہ کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرا مجمع میں ذکر کرتا ہے تو میں اس مجمع سے بہتر (یعنی فرشتوں کے) مجمع میں (جو معصوم اور بے گناہ ہیں) اس کا تذکرہ کرتا ہوں اور اگر بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں ایک باع (یعنی دونوں بازوؤں کے پھیلاؤ کی مقدار، مراد ہے رحمت و لطف، مولف) بڑھتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
فائدہ: اس حدیث میں کئی مضمون وارد ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ بندہ کے ساتھ اس کے گمان کے موافق معاملہ کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ سے اس کے لطف و کرم کی امید رکھنی چاہیے اور اس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہونا چاہیے اور ہر معاملے میں اللہ پاک سے نیک گمان رکھنا چاہیے۔
۲۔ ذاکر پر اللہ کی خاص توجہ اور رحمت کا نزول ہوتا رہتا ہے۔
۳۔ اللہ پاک فرشتوں کے مجمع میں تفاخر کے طور پر اس کا ذکر کرتا ہے۔
۴۔ اللہ پاک ذکرکرنے والے کی طرف اس کی توجہ سے کہیں زیادہ توجہ و لطف فرماتا ہے، وغیرہ۔
۲۔ عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّﷺ: مَثَلُ الْبَیْتِ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَایَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ۔ (بخاری: ۵/ ۲۳۵۳، رقم: ۶۰۴۴)
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔
فائدہ: یعنی ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے، مراد دل کی زندگی اور موت ہے یا نفع اور نقصان کے اعتبار سے تشبیہ ہے یا بعد الموت ہمیشہ کی زندگی ہے جیسا کہ شہداء کے متعلق ارشاد ہے:
بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾ (البقرۃ: ۱۵۴)
زندگانی نتواں گفت حیاتے کہ مراست
زندہ آنست کہ بادوست وصالے دارد
جس طرح کی زندگی میری ہے اسے زندگی نہیں کہہ سکتے۔
زندہ تو وہ ہے جو دوست کے ساتھ وصال رکھتا ہو۔
۳۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: مَا عَمِلَ آدَمِیٌّ عَمَلًا اُنْجٰی لَہٗ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ (احمد:۶/ ۳۱۷۔ مجمع الزوائد: ۷/ ۱۰، رقم: ۱۶۷۴۵)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے ذکر سے بڑھ کر کسی آدمی کا کوئی عمل عذاب قبر سے نجات دینے والا نہیں ہے۔
۴۔ عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: اِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَارْتَعُوْا قَالُوْا: وَمَا رِیَاضُ الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: حَلْقُ الذِّکْرِ۔ (ترمذی: ۵/ ۳۰۴، رقم: ۳۵۲۱۔ احمد: ۳/ ۶۱۹)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم جنت کے باغوں میں گزرو توخوب میوے کھاؤ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جنت کے باغ کیا ہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذکرکے حلقے۔
فائدہ: ذکر کے حلقوں کو جنت کے باغ اس لیے کہا کہ ان کے سبب سے بہشت کے باغوں میں داخل ہوناہے۔ نیز یہ کہ جنت کی طرح یہ مجالس بھی ہر آفت سے محفوظ رہتی ہیں۔ خوب کھاؤ یعنی باوجود دنیاوی تفکرات اور موانع کے ذکر کے حلقوں میں شامل رہو اور منہ نہ موڑو جس طرح ذکر کرنا مستحب ہے، ویسے ہی حلقہ ذکر میں بیٹھنا بھی مستحب ہے۔
۵۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قَالَ: اَکْثِرُوْا ذِکْرَ اللّٰہِ حَتّٰی یَقُوْلُوْا مَجْنُوْنٌ۔ (احمد: ۳/ ۶۸، رقم: ۱۶۷۱۔ ابن حبان: ۳/ ۹۹، رقم: ۸۱۷)
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ مجنون کہنے لگیں۔ (دوسری حدیث میں ہے کہ ایسا ذکر کرو کہ منافق لوگ تمہیں ریا کار کہنے لگیں)۔
فائدہ: لوگوں کے مجنون یا ریا کار کہنے کی وجہ سے ذکر کو چھوڑ دینا اپنا ہی نقصان کرنا اور شیطان کا دھوکا ہے۔
۶۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ یَقُوْلُ: اَلدُّنْیَا مَلْعُوْنَۃٌ مَلْعُوْنٌ مَا فِیْہَا اِلَّا ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا وَالَاءُ اَوْ عَالِمًا مُتَعَلِّمًا۔ (ابن ماجہ: ۲/ ۱۳۷۷، رقم: ۴۱۱۲۔ ترمذی:۴/ ۵۶۱، رقم: ۲۳۲۲)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جو کچھ دنیا میں ہے سب ملعون (اللہ کی رحمت سے دور) ہے مگر اللہ کا ذکر اور وہ چیز جو اس کے قریب ہو اور عالم اور طالب علم۔
فائدہ: ذکر کے قریب ہونے سے وہ چیزیں مراد ہوں گی جو اللہ کے ذکر میں معین و مددگار ہوں یعنی بقدر ضرورت کھانا پینا زندگی کے اسباب ضروریہ اور ہر چیز جو شریعت مقدسہ کے مطابق ہو ذکر ہے اور اگر مراد اللہ تعالیٰ کا قرب ہو تو ساری عبادتیں اس میں داخل ہوں گی۔
۷۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: لَا تُکْثِرُوا الْکَلَامَ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَاِنَّ کَثْرَۃَ الْکَلَامِ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ قَسْوَۃٌ لِلْقَلْبِ وَاِنَّ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللّٰہِ اَلْقَلْبُ الْقَاسِیْ۔ (ترمذی: ۴/ ۶۰۷، رقم: ۲۴۱۱)
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا: اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام نہ کرو، اس لیے کہ اللہ کے ذکر کے بغیر بہت کلام کرنا دل کی سختی کا موجب ہے اور آدمیوں میں اللہ سے زیادہ دور وہ ہے جو سخت دل ہو۔
فائدہ: یعنی سخت دل آدمی خوف خدا کم رکھتا ہے، آخرت سے غافل اور دنیا میں مشغول رہتا ہے، حق بات نہیں سنتا۔
۸۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّﷺ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ: لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالَۃٌ وَاِنَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ۔ (الترغیب: ۲/ ۴۵۴، رقم: ۲۲۹۵)
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ سے منقول ہے کہ آپﷺفرماتے تھے: ہر چیز کا صیقل (صفائی) ہے اور دلوں کا صیقل (صفائی) ذکر الٰہی ہے۔
۹۔ عَنْ اَبِی الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ: اَنَامَعَ عَبْدِیْ اِذَا ھُوَ ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ۔ (۳)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا: بےشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں (یعنی اس کی مدد کرتا ہوں اور توفیق دیتا و رحمت و رعایت کرتا ہوں) جس وقت مجھ کو یاد کرتا ہے اور میرے ذکر کے ساتھ اپنے دونوں ہونٹ ہلاتا ہے (یعنی دل اور زبان سے یاد کرتا ہے)۔
۱۰۔ عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما قَالَ:مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا عَلٰی قَلْبِہٖ الْوَسْوَاسُ فَاِنْ ذَکَرَ اللّٰہَ خَنَسَ وَاِنْ غَفَلَ وَسْوَسَ۔ (۴)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہر انسان کے دل میں وسوسہ ہیں، جب آدمی اللہ تعالیٰ کو (دل سے) یاد کرتا ہے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب غافل ہوتا ہے تو وسوسہ ڈالنے لگتا ہے۔
۱۱۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ بُسْرٍ اَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ شَرَائِعَ الْاِسْلَامِ قَدْ کَثُرَتْ فَاَخْبِرْنِیْ بِشَیْءٍ اَتَشَبَّتُ بِہٖ قَالَ: لَا یَزَالُ لِسَانَکَ رَطْبًا مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ (ترمذی: رقم: ۳۳۷۵۔ ابن ابی شیبہ: ۷/ ۱۷۰، رقم: ۳۵۰۵۳۔)
عبداللہ بن بسررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بے شک اسلام کے احکام (یعنی نوافل) مجھ پر بہت غالب ہوئے ہیں (یعنی بہت ہیں کہ اپنے ضعف کے سبب سب کے کرنے سے عاجز ہوں) پس مجھے ایسی چیز کی خبر دیجیے کہ میں اس کے ساتھ چمٹ جاؤں (یعنی ایسا عمل فرمائیے کہ بہت سے ثواب کا باعث اور جامع اور آسان ہو اور کسی مکان و زمان اور حال پر موقوف نہ ہو کہ اس کو بعد ادائے فرائض اپنا ورد بنالوں اور سب نوافل سے اس کے سبب مستغنی ہو جاؤں) آپﷺ نے فرمایا: تیری زبان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ تر (جاری) رہے۔
فائدہ: زبان سے مراد بدن کی زبان یا دل کی زبان ہے۔
۱۲۔ وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ: اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَءُ کَمَا یَصْدَءُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَاءُ۔قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا جِلَاءُھَا؟ قَالَ :کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ۔ (بیہقی۔)
اور حضورﷺ نے فرمایا: بیشک ان دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح کہ لوہے کو جب کہ اس کو پانی پہنچ جاتا ہے زنگ لگ جاتا ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! اس کی جلا کس چیز سے ہوتی ہے؟ فرمایا:موت کو بکثرت یاد کرنے سے اور قرآن مجید کی تلاوت سے۔
۱۳۔ عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ قَالَ: مَا مِنْ قَوْمٍ اِجْتَمَعُوْا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ لَا یُرِیْدُوْنَ بِذَالِکَ اِلَّا وَجْھَہٗ اِلَّا نَادَاھُمْ مُنَادٍ مِّنَ السَّمَاءِ اَنْ قُوْمُوْا مَغْفُوْرًا لَّکُمْ قَدْ بُدِّلَتْ سَیِّاٰتِکُمْ حَسْنَاتٍ۔ (ابی یعلی: ۷/ ۱۶۷، رقم: ۴۱۴۱۔ احمد: ۳/ ۱۴۲، رقم: ۱۲۴۷۔)
حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور انورﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے جمع ہوں اور ان کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو تو آسمان سے ایک فرشتہ ندا کرتا ہے کہ تم لوگ بخش دیئے گئے اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں۔
فائدہ: ذکر کی برکت سے برائیاں بھی نیکیوں سے بدل دی جاتی ہیں۔
۱۴۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: مَنْ قَعَدَ مَقْعَدًا لَمْ یَذْکُرِ اللّٰہَ فِیْہِ کَانَتْ عَلَیْہِ مِنَ اللّٰہِ تِرَۃٌ وَمَنِ اضْطَجَعَ مَضْجَعًا لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْہِ کَانَتْ عَلَیْہِ مِنَ اللّٰہ تِرَۃٌ۔ (ابوداود: ۴/ ۲۷۵، رقم: ۴۸۵۶۔ شعب الایمان: ۱/ ۴۰۳۔ احمد: ۲/ ۵۲۷۔)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ایک مجلس میں بیٹھے اور اس میں اللہ کو یاد نہ کرے اس پر ایسا بیٹھنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے افسوس اور نقصان ہوگا اور جو شخص خواب گاہ میں لیٹے اس طرح کہ اس میں اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کرے اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے افسوس و نقصان ہوگا۔
فائدہ: یعنی اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے اور شب و روز ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہیے اور جو وقت ذکر سے خالی ہوگا وہ قیامت میں موجب حسرت و ندامت ہوگا۔
۱۵۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ یَذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْہِ وَلَمْ یُصَلُّوا عَلَیْہِ نَبِیَّہُمْ اِلَّا کَانَ عَلَیْہِمْ تِرَۃٌ فَاِنْ شَاءَ عَذَّبَھُمْ وَاِنْ شَاءَغَفَرَلَہُمْ۔ (ترمذی: ۵/ ۴۶۱، رقم: ۳۳۸۰۔)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا: کوئی قوم کسی مجلس میں نہیں بیٹھتی کہ نہ اس میں اللہ کا ذکر کیا ہو اور نہ اپنے نبیﷺ پر درود بھیجا ہو مگر وہ مجلس ان پر افسوس ہوگی، پھر اگر خدا چاہے ان کو عذاب کرے اور اگر چاہے ان کو بخش دے۔
فائدہ: یعنی بسبب اگلے پچھلے گناہوں کے عذاب کرے یا از راہ فضل و رحمت بخش دے۔ اس میں اشارہ ہے کہ جب اہل مجلس اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں کرتا بلکہ یقینا بخش دیتا ہے۔
۱۶۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: مَا مِنْ قَوْمٍ یَقُوْمُوْنَ مِنْ مَجْلِسٍ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ فِیْہِ اِلَّا قَامُوْا عَنْ مِثْلِ جِیْفَۃِ حِمَارٍ وَکَانَ عَلَیْہِمْ حَسْرَۃٌ۔ (احمد و ابوداود: ۴/ ۲۶۴، رقم: ۴۸۵۵۔ احمد: ۲/ ۵۱۵، رقم: ۱۰۶۹۱۔ )
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو لوگ کسی ایسی مجلس سے کھڑے ہوں جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا ہو وہ گویا ایک گدھے کی لاش پر سے کھڑے ہوئے ہیں اور یہ امر ان کے لیے موجب ندامت ہوگا۔
فائدہ: یعنی جس مجلس میں خدا کو یاد نہ کیا ہو وہ مجلس مردار گدھے کی مانند ہے اور جو لوگ وہاں سے اٹھے گویا وہ مردار کھا کر اٹھے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ مجلس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کے اختتام پر یہ دعا پڑھے:
سُبْحَانَ اللّٰہ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ۔ (ابوداود: ۴/ ۲۸۶، رقم: ۴۸۵۹۔)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجلس کے ختم پر یہ دعا پڑھے:
سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ (حصن حصین۔)
۱۷۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: لَیْسَ یَتَحَسَّرُ اَھْلُ الْجَنَّۃِ عَلٰی شَیْءٍ اِلَّا عَلٰی سَاعَۃٍ مَرَّتْ بِہِمْ لَمْ یَذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْہَا۔ (شعب الایمان: ۱/ ۳۹۲، رقم: ۵۱۲۔ المعجم الکبیر: ۲۰/ ۹۳۔)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اہل جنت کوکسی چیز کی حسرت نہ ہوگی سوائے اس گھڑی (لمحے) کے جو ان سے بغیر ذکر اللہ کے گزری ہوگی۔
۱۸۔ عَنْ اُمِّ حَبِیْبَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: کُلُّ کَلَامِ بْنِ آدَمَ عَلَیْہَِ لَا لَہُ اِلَّا اَمْرٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ نَھْیٌ عَنِ مُنْکَرٍ اَوْ ذِکْرُ اللّٰہِ۔ (ترمذی: ۴/ ۶۰۸، رقم: ۲۴۱۲۔ مسند ابی یعلی: ۱۳/ ۵۸،رقم: ۷۱۳۴۔)
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ آدمی کاہر کلام و بال ہے اس پر مگر نیکی کا امر کرنا یا برائی سے منع کرنا یا اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا۔
فائدہ: اس حدیث میں ایسے مباح کلام سے جس میں عقبی کا نفع نہ ہو بچنے کی تاکید پر مبالغہ ہے اور جو باتیں امر معروف و نہی منکر و ذکر اللہ کے مانند یا معاون ہوں وہ منع نہیں۔
۱۹۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: فِیْمَا یَذْکُرُ عَنْ رَبِّہٖ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ اُذْکُرْنِیْ بَعْدَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الْعَصْرِ سَاعَۃً اَکْفِکَ مَا بَیْنَہُمَا۔ (الدر المنثور: ۶/ ۶۲۰۔)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ اللہ جل شانہ کا پاک ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ تو صبح کی نماز کے بعد اور عصر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر مجھے یاد کرلیا کر، میں ان دونوں کے درمیانی حصے میں تیری کفایت کروں گا۔
فائدہ: ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کا ذکر کیا کر، وہ تیری مطلب براری میں معین ہوگا۔ انہی وجوہ سے صبح اور عصر کی نماز کے بعد اوراد کا معمول ہے اور حضرات صوفیہ کے یہاں تو ان وقتوں کا خاص اہتمام ہے، بالخصوص فجر کے بعد فقہاء بھی اہتمام فرماتے ہیں۔
۲۰۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ یَفْضَلُ الذِّکْرَ الْخَفِیَّ الَّذِیْ لَا یَسْمَعُہُ الْحِفْظَۃُ سَبْعِیْنَ ضُعْفًا۔ (۵)
اور حضور اقدسﷺ نے فرمایا: وہ ذکر جس کو حفظہ (حفاظت کرنے والے فرشتے) نہیں سنتے (یعنی ذکر خفی) اس ذکر پر جن کو حفظہ سنتے ہیں (ذکر جلی پر) ستر درجے فضیلت رکھتا ہے۔
فائدہ: ذکر خفی کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں اور ذکر جہر بھی مشروع ہے، دونوں مستقل چیزیں ہیں جو حالات کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ اس کو شیخ تجویز کرتا ہے کہ کسی شخص کے لیے کس وقت کیا مناسب ہے اور ہر سلسلے میں مزاج کی رعایت کرتے ہوئے دونوں کو اعتدال کے ساتھ لیا گیا ہے۔
۲۱۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: خَیْرُ الذِّکْرِ الْخَفِیُّ۔ (۶)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر ذکر خفی ذکر ہے۔
۲۲۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَ اَبِیْ سَعِیْدٍ رضی اللہ عنہما اَنَّہُمَا شَھِدَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ اَنَّہٗ قَالَ:لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا حَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَغَشِّیْتُہُمُ الرَّحْمَۃُ وَنَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ۔ (۷)
ابوہریرہ اور ابوسعیدرضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا: کوئی جماعت ذکر الہٰی میں مشغول نہیں ہوتی مگر اس کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی جماعت ملائکہ میں ان کا ذکر (تفاخر کے طور پر) کرتا ہے۔
فائدہ: امام نووی فرماتے ہیں کہ سکینہ کوئی ایسی مخصوص چیز ہے جو طمانیت و رحمت وغیرہ سب کو شامل ہے اور ملائکہ کے ساتھ اترتی ہے۔
۲۳۔ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ)! مَنْ اَوْلِیَاءُ اللّٰہِ؟ قَالَ: اَلَّذِیْنَ اِذَا رَؤُوْا ذُکِرَ اللّٰہُ۔ (۸)
سعید بن جبیررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اولیاء اللہ کون ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ یاد آجائے۔
فائدہ: یہ بات جب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب کہ کوئی شخص کثرت سے ذکر کا عادی ہو اور جس کو خود ہی توفیق نہ ہو اس کو دیکھ کر کسی کو کیا اللہ کی یاد آسکتی ہے۔
۲۴۔ عَنْ خَالِدِ بْنِ اَبِیْ عِمْرَانَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: مَنْ اَطَاعَ اللّٰہَ فَقَدْ ذَکَرَ اللّٰہَ وَاِنْ قَلَّتْ صَلٰوتُہٗ وَصِیَامُہٗ وَتِلَاوَتُہٗ لِلْقُرْآنِ وَمَنْ عَصَی اللّٰہَ فَقَدْ نَسِیَ اللّٰہَ وَاِنْ کَثُرَتْ صَلٰوتُہُ وَصِیَامُہٗ وَتِلَاوَتُہُ لِلْقُرْآنِ۔ (۹)
اور حضور اقدسﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کی اس نے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اگرچہ اس کی نمازیں اور روزے اور تلاوت قرآن کریم کم ہوں (یعنی نفلی عبادات کم ہوں) اور جس نے اللہ تعالیٰ کے (احکام) کی نافرمانی کی تو اس نے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کیا، اگرچہ اس کی نمازیں اور روزے اور تلاوت قرآن زیادہ ہوں۔
فائدہ: حقیقت میں ذاکروہی شخص ہے جو خداوند عالم کے اوامر کو بجالائے اور منہیات سے بچے اگرچہ اس کی نفلی عبادات کم ہوں اور جو لوگ نفلی طاعات زیادہ کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے اوامر کو بجا نہیں لاتے اور منہیات سے نہیں بچتے اور اپنے معاملات کو درست نہیں کرتے ایسے لوگ حقیقت میں غافلوں میں شمار ہیں۔
۲۵۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہما قَالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَفْضَلُ الدُّعَاءِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ (نسائی/ کبری: ۶/ ۲۰۸، رقم: ۱۰۶۶۷۔)
جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر ذکر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے اور سب سے بہتر دعا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ہے۔
فائدہ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اس لیے افضل ہے کہ اس کے بغیر ایمان صحیح نہیں اور باطن کے پاک کرنے میں عجیب تاثیر رکھتا ہے۔
۲۶۔ وَفِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ لِاَبِیْ ذَرٍّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: اُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَاِنَّہَا رَاْسُ اَمْرِکَ وَعَلَیْکَ بِتِلَاوَۃِ الْقُرْآنِ وَذِکْرِ اللّٰہِ فَاِنَّ ذَالِکَ نُوْرٌ لَکَ فِی السَّمٰوَاتِ وَنُوْرٌ فِی الْاَرْضِ۔ (المعجم الکبیر: ۲/ ۱۵۸۔ ابن حبان: ۲/ ۶۸۔)
ایک طویل حدیث میں ابوذررضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں تجھے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جو کہ تمام چیزوں کی جڑ ہے اور قرآن شریف کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کا اہتمام کر کہ اس سے آسمانوں میں تیرا ذکر ہوگا اور زمین میں تیرے لیے نور کا سبب بنے گا۔
۲۷۔ عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: لَوْ اَنَّ رَجُلًا فِیْ حِجْرِہٖ دَرَاہِمُ یَقْسِمُہَا وَاٰخَرَ یَذْکُرُ اللّٰہَ لَکَانَ الذَّاکِرُ لِلّٰہِ اَفْضَلُ۔ (المعجم الاوسط: ۶/ ۱۶۶، رقم: ۵۹۶۹۔)
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص کے پاس بہت سے روپے ہوں اور وہ ان کو تقسیم کر رہا ہو اور دوسرا شخص اللہ کے ذکر میں مشغول ہو تو ذکر کرنے والا افضل ہے۔
فائدہ: اللہ کے راستے میں خرچ کرنا کتنی ہی بڑی چیز کیوں نہ ہو لیکن اللہ کی یاد اس سے بھی افضل ہے۔ پھر جو مال دار اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والا اللہ کا ذکر بھی کرتا ہو وہ کس قدر خوش نصیب ہے۔
۲۸۔ قَالَ ﷺ: خَیْرُ الْاَعْمَالِ ذِکْرُ اللّٰہ تَعَالٰی۔ (جامع اصول الاولیاء۔)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
فائدہ: یہ مراد نہیں کہ اور اعمال کو چھوڑ دو بلکہ یہ مراد ہے کہ ذکر کا ثمرہ سب عملوں سے زیادہ ہے۔
۲۹۔ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: اَیُّ الْاَعْمَالِ اَفْضَلُ؟ فَقَالَ: اَنْ تَمُوْتَ وَلِسَانُکَ رَطْبٌ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ (ابن حبان: ۳/ ۹۹، رقم: ۸۱۸۔ المعجم الکبیر: ۲۰/ ۹۳۔)
رسول اللہﷺ سے کسی نے پوچھا کہ اعمال میں سے کون سا عمل بہتر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تجھ کو موت آئے تو تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔
فائدہ: یعنی ہر وقت اللہ کی یاد میں لگا رہے تاکہ اس کے نتیجے کے طور پر مرتے وقت بھی زبان و دل سے ذکر جاری رہے۔
۳۰۔ قَالَ ﷺ: اَلذِّکْرُ خَیْرٌ مِّنَ الصَّدَقَۃِ۔ (فیض القدیر: ۳/ ۵۶۹۔)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ذکر صدقہ سے بہتر ہے۔
۳۱۔ قَالَﷺ: مَا مِنْ صَدَقَۃٍ اَفْضَلُ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ (مجمع الزوائد: ۱۰/ ۷۴۔)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی صدقہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے افضل نہیں (یعنی ذکر ہر صدقہ سے افضل ہے)۔
۳۲۔اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ سُئِلَ: اَیُّ الْعِبَادِ اَفْضَلُ دَرَجَۃٍ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ قَالَ: اَلذَّاکِرُوْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ (۱۰)
رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بلند مرتبہ لوگ کون ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ذکر کرنے والے۔
۳۳۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ: یَا اِبْنَ اٰدَمَ اِنَّکَ اِذَا ذَکَرْتَنِیْ شَکَرْتَنِیْ وَاِذَا نَسِیْتَنِیْ کَفَرْتَنِیْ۔ (المعجم الاوسط: ۷/ ۲۰۰، رقم: ۷۲۶۵۔)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے آدمی! جب تو میرا ذکر کرتا ہے تو میرا شکر نعمت کرتا ہے اور جب تو مجھ کو بھول جاتا ہے تو میری نعمت کا کفران کرتا ہے۔
فائدہ:
ہر آں کہ گافل ازوے یک زمان ست
در آں دم کافرست اماں نہان ست
اگر آں غافلی پیوستہ بودے
در اسلام بردے بستہ بودےجو شخص تھوڑی دیر کے لیے اللہ سے غافل ہوا وہ اس وقت کافر ہے، لیکن پوشیدہ ہے۔
اگر اس کی یہ غفلت مسلسل ہوتی تو اس پر اسلام کا دروازہ بند ہوجاتا۔
مگر چونکہ وہ غافل ہمیشہ نہیں ہے
اس لیے در اسلام (ذکر حق کا کرنا) کھلا ہوا ہے۔
۳۴۔ عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: مَنْ شَغَلَہٗ ذِکْرِیْ عَنْ مَسْئَلَتِیْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَا اُعْطِیَ السَّائِلِیْنَ۔ (مسند الشہاب: ۲/ ۳۲۶، رقم: ۱۴۵۴۔)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس کو میرا ذکر مجھ سے مانگنے سے روک دے گا (یعنی میرے ذکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے مجھ سے کچھ مانگنے کی فرصت نہ ہوگی)میں اس کو مانگنے والوں سے افضل و بہتر دوں گا۔
فائدہ: ذکر کی برکت سے خاص عطیہ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔
۳۵۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ فِیْ حَدِیْثٍ قَالَ ﷺ: سَبَقَ الْمُفَرِّدُوْنَ قَالَ: وَمَا الْمُفَرِّدُوْنَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: اَلذَّاکِرُوْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ۔ (مسلم: ۴/ ۲۰۶۲، رقم: ۲۶۷۶۔ احمد: ۲/ ۴۱۱، رقم: ۹۳۲۱۔ )
ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ مفردون الگ ہو کہ (آگے جانے والے) سبقت لے گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مفردون کون ہیں؟ فرمایا کہ وہ مرد اور عورتیں جو اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرتے ہیں۔
فائدہ: اصلی سبقت کثرت ذکر سے سیرابی حاصل کرنا ہے۔
۳۶۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: اَلذِّکْرُ نِعْمَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَاَدُّوْا شُکْرَھَا۔ (کنز العمال: رقم:۱۷۴۹۔ فیض القدیر: ۳/ ۵۶۹۔)
حضرت رسول خداﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ذکر بڑی نعمت ہے اس نعمت کا شکر ادا کرو۔
۳۷۔ عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قَالَ: لَاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالُ فِی الْاَرْضِ اَللّٰہُ اَللّٰہُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ عَلٰی اَحَدٍ یُقُوْلُ: اَللّٰہُ اَللّٰہُ۔ (مسلم: ۳/ ۱۳۱، رقم: ۱۴۸۔ ترمذی: ۴/ ۴۹۲، رقم: ۲۲۰۷۔)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ (زمین) دنیا ایسی ہوجائے گی کہ اس میں اللہ اللہ نہ کہا جائے گا اور ایک روایت میں ہے کہ جب تک کوئی اللہ اللہ کہے گا اس پر قیامت نہیں آئے گی۔
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محض کلمہ اللہ کا تکرار مشروع ہے، اگرچہ اس سے محض تبرک و استحضار ہی مقصود ہو خواہ کسی معنی خبری یا انشائی کو مفید نہ بھی ہو۔ ذکر اسم ذات کی فضیلت ظاہر ہے خواہ وہ جہری ہو یا خفی و سری۔
۳۸۔ عَنْ مَالِکٍ قَالَ: بَلَغَنِیْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ کَانَ یَقُوْلُ: ذَاکِرُ اللّٰہَ فِی الْغَافِلِیْنَ کَالْمُقَاتِلِ خَلْفَ الْفَارِّیْنَ وَذَاکِرُ اللّٰہِ فِی الْغَافِلِیْنَ کَغُصْنٍ اَخْضَرُ فِیْ شَجَرٍ یَابِسٍ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِثْلُ الشَّجَرَۃِ الْخَضْرَاءِ فِیْ وَسْطِ الشَّجَرِ۔ وَذَاکِرُ اللّٰہِ فِی الْغَافِلِیْنَ مِثْلُ مِصْبَاحٍ فِیْ بَیْتٍ مُّظْلِمٍ وَذَاکِرُ اللّٰہِ فِی الْغَافِلِیْنَ یُرِیْہِ اللّٰہُ مَقْعَدَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ وَھُوَ حَیٌّ وَذَاکِرُ اللّٰہِ فِی الْغَافِلِیْنَ یُغْفَرُ لَہٗ بِعَدَدِ کُلِّ فَصِیْحٍ وَاَعْجَمَ وَالْفَصِیْحُ بَنُوْ اٰدَمَ وَالْاَعْجَمُ الْبَھَائِمُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ذَاکِرُ اللّٰہِ فِی الْغَافِلِیْنَ کَالْحَیِّ بَیْنَ الْاَمْوَاتِ۔ (۱۱)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ غافلوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ایسا ہے جیسا بھاگنے والوں کے پیچھے لڑنے والا (یعنی ایک جماعت تو لڑائی سے بھاگ گئی اور ان کے بعد ایک شخص کافروں سے لڑتا رہا، یہ بڑی فضیلت رکھتا ہے) اور فرمایا: غافلوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ایسا ہوتا ہے جیسا سوکھے اور ٹوٹے درختوں میں سر سبز درخت ہوتاہے (ظاہر ہے کہ پھل سر سبز درخت کو ہی لگتا ہے سوکھے درخت کو نہیں لگتا) اور فرمایا:غافلوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اندھیرے گھر میں چراغ اور غافلوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اس کا ٹھکانا جنت میں (حالت زندگی میں) دکھا دیتا ہے (یعنی مکاشفہ کے ساتھ یا خواب میں یا ایسا یقین بخشتا ہے کہ گویا دیکھتا ہے) اور فرمایا: غافلوں میں اللہ کا ذکر کرنے والے کے گناہ کل فصیح و اعجم کی تعداد کے بقدر بخشے جاتے ہیں۔ فصیح سے مراد اولاد آدم اور اعجم سے مراد جانور۔ (یہ کئی حدیثوں کی جامع ہے)۔
۳۹۔ مَا مِنْ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ اِلَّا وَلِلّٰہِ فِیْہَا صَدَقَۃٌ یَمُنُّ بِھَا عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَمَا مَنَّ عَلٰی عَبْدٍ بِمِثْلِ اَنْ یّْلْھِمَہٗ ذِکْرَہٗ۔ (بزار: ۹/ ۳۳۶، رقم: ۳۸۹۰۔)
کوئی دن اور کوئی رات نہیں ہوتی مگر اللہ عزوجل اس میں اپنے جس بندہ پر چاہتے ہیں صدقہ کر کے احسان فرماتے ہیں اور بندہ پر اللہ کا اس سے بڑا کوئی احسان نہیں کہ اسے اپنے ذکر کا الہام فرمادے۔
۴۰۔ عَنْ اَبِی الْبُخَارِیِّ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّﷺ: مَرَرْتُ لَیْلَۃَ اُسْرٰی بِیْ بِرَجُلٍ مُغَیِّبٍ فِیْ نُوْرِ الْعَرْشِ قُلْتُ: مَنْ ھٰذَا؟ اَھٰذَا مَلَکٌ؟ قِیْلَ: لَا۔ قُلْتُ: نَبِیٌّ؟ قِیْلَ: لَا۔ قُلْتُ: مَنْ ھُوَ؟قَالَ: ھٰذَا رَجُلٌ کَانَ فِی الدُّنْیَا لِسَانُہٗ رَطْبٌ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہ وَقَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ بِالْمَسَاجِدِ وَلَمْ یَسْتَسِبَّ لِوَالِدَیْہِ۔ (الترغیب والترہیب: ۲/ ۲۵۳۔)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میرا گزر ایک ایسے شخص کے پاس ہوا جو عرش کے نور میں چھپا ہوا تھا۔ میں نے دریافت کیا: کیا یہ کوئی فرشتہ ہے؟جواب دیا گیا: نہیں۔ میں نے دریافت کیا: کیا یہ کوئی نبی ہے؟ جواب دیا گیا: نہیں۔ میں نے دریافت کیا: یہ کون ہے؟ (جبرائیل علیہ السلام نے) جواب دیا: یہ وہ شخص ہے جس کی زبان اللہ کے ذکر سے تر رہتی تھی جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا تھا اور جس نے اپنے والدین کو برا بھلا نہیں کہا۔
فائدہ: غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس شخص کو جو یہ مرتبہ ملا اس کی تین وجوہات ذکر کی گئی ہیں اور ان میں سے ذکرکو مقدم کیا گیا ہے۔
۴۱۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی لِمَلَائِکَتِہِ: قَرِّبُوْا مِنِّیْ اَھْلَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَاِنِّیْ اُحِبُّھُمْ۔ (جامع اصول الاولیاء۔)
وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ لَیْسَ لَھَا دُوْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ حَتّٰی تَخْلَصَ اِلَیْہِ۔ (جامع اصول الاولیاء۔)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے والوں کو میرے پاس لاؤ کہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں۔ نیز فرمایا: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں یہاں تک کہ تو اللہ تعالیٰ سے جاملے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ بخاری:۵/ ۲۳۸۴، رقم:۶۱۳۷۔ ابن حبان:۳/ ۵۸، رقم:۳۴۷۔
۲۔بخاری: ۶/ ۲۶۹۴، ابن حبان: ۳/ ۹۳، رقم: ۸۱۱
۳۔ بخاری: ۶/ ۲۷۳۶، رقم: ۷۰۸۶۔ ابن ماجہ: ۲/ ۱۲۴۶، رقم: ۳۷۹۲۔ حاکم: ۱/ ۶۷۳، رقم:۱۸۲۴۔
۴۔ شعب الایمان: ۱/ ۴۵۰، رقم: ۶۷۶۔ حاکم: ۲/ ۵۹۰، رقم:۳۹۹۹۔ اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بتایا گیا ہے جو آیت قرآنی الوسواس الخناس کی تفسیرمیں بیان ہوا ہے۔ ابویعلی سے یہ روایت مرفوعا بیان ہوئی ہے، البتہ اس کے الفاظ میں فرق ہے اس سے الفاظ یہ ہیں: ان الشیطان واضع خطمہ علی قلب ابن آدم فان ذکر اللہ خنس وان نسی التقم قلبہ فلذالک الوسواس الخناس۔ مسند ابی یعلی: ۷/ ۲۷۸، رقم: ۴۳۰۱۔
۵۔ ابویعلی: ۸/ ۱۸۳، رقم:۴۷۳۸۔ شعب الایمان: ۱/ ۴۰۷، رقم: ۵۵۵۔
۶۔ احمد وابن حبان: ۳/ ۹۱، رقم: ۸۰۹۔ شعب الایمان: ۱/ ۴۰۶، رقم: ۵۵۲۔ ابن ابی شیبہ: ۶/ ۸۵، رقم: ۲۹۶۶۳۔ احمد: ۱/ ۱۷۲، رقم: ۱۴۷۷۔
۷۔ مسلم: ۴/ ۲۰۷۴، رقم: ۲۷۰۰۔ ابن ماجہ: ۲/ ۱۲۴۵، رقم: ۳۷۹۱۔ احمد: ۳/ ۹۴، رقم: ۱۱۹۱۰۔
۸۔ تفسیر ابن کثیر: ۲/ ۴۳۳۔ ابن ابی الدنیا/ الاولیاء: ۱/ ۱۴، رقم: ۱۵۔ الزہد لابن مبارک: ۱/ ۳۴۰، رقم: ۹۵۸۔ الزہد کی روایت میں الفاظ کا فرق ہے۔
۹۔ سعید بن منصور: ۲/ ۶۳۰، رقم: ۲۳۰۔ شعب الایمان: ۱/ ۴۵۲، ۶۸۷۔
۱۰۔ترمذی: ۵/۴۵۸، رقم: ۳۳۷۶۔
۱۱۔ الترغیب والترہیب: ۲/ ۳۳۷۔ اس روایت کے بعض حصے دوسری کتب میں بھی نقل ہوئے ہیں، ملاحظہ کیجیے: بزار: ۵/ ۱۶۶، رقم: ۱۷۵۹۔ المعجم الاوسط: ۱/ ۹۰، رقم: ۲۷۱۔